واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت مولاناخواجہ امکنگی

رحمتہ  اللہ  علیہ

          حضرت خواجہ محمد مقتدیٰ رحمتہ اللہ علیہ بخارا کے ایک گاؤں امکنہ میں ۹۱۸ھ بمطابق ۱۵۱۲ یا ۱۵۱۳ع کو قطب عالم حضرت خواجہ درویش محمد رحمتہ اللہ علیہ کے گھر تولد ہوئے۔ اسی نسبت کی وجہ سے امکنگی کہلاتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

           آپ کے والد ماجد اپنے زمانے کے اولیائے کاملین میں سے تھے۔ آپ کی یہ خوش نصیبی و خوش بختی تھی کہ آپ نے جس ماحول میں آکھ کھولی وہ خالص دینی اور تقویٰ کا ماحول تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون تھیں۔ جب والدین صاحبِ تقویٰ ہوں اور مقربین بارگاہ الٰہی بھی ہوں تو اولاد پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

          خداوند تعالیٰ نے آپ سے عظیم کام لینا تھا، اس لئے بچپن سے ہی بزرگی کے آثار آپ کے چہرۂ انور پر ہویدہ تھے۔ والدین نے بھی اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھا اور آپ کی بہترین تربیت فرمائی۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار کے دست حق پرست پر ہی سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت فرمائی اور اپنے والد بزرگوار کے قلب منور سے خوب نور کمال و فروغ اکمال کا کسب کیا۔ آپ کی طبعی استعداد اور ذاتی قابلیت نے اس نسبت کے حسن میں چار چاند لگادیئے۔ سیر و سلوک کی تکمیل کے بعد خرقۂ خلافت بھی اپنے والد بزرگوار حضرت خواجہ درویش محمد رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ لیکن آپ کی طبیعت مبارکہ پر بھی عاجزی و انکساری کا غلبہ رہتا تھا اس لئے آپ نے مخلوق کے اژدہام سے خود کو پوشیدہ رکھا۔ 

              ایک عرصہ تک لوگوں کو علم نہ ہوسکا کہ حضرت کی روحانی استعداد کیا ہے۔ لیکن حق سبحانہ و تعالیٰ کو منظور ہوا کہ آپ سے طالبان طریقت کی تربیت کا کام لیا جائے تو آپ اولیائے عزلت کے گوشہ سے نکل کر اولیائے عشرت کی انجمن میں تشرف لے آئے۔ چنانچہ آپ کو حکم ہوا کہ مخلوق کی تربیت و ہدایت کے لئے کام کریں۔ اس کے بعد طالبانِ طریقت اور تشنگانِ معرفت کا رجوع آپ کی طرف ہوا۔ کسی کو خواب کے ذریعہ آپ کی طرف رہنمائی کی گئی، کسی نے دوسروں سے سن سناکر اور کسی نے آپ کے تربیت یافتہ افراد کو دیکھ کر آپ کی طرف رجوع کیا۔ چنانچہ بہت سے خفتہ دل آپ کی صحبت کی برکت سے خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور بہت سے فاضل آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ منجملہ ان افراد کے آپ کے حلقۂ ارادت میں حضرت مولانا درویش علیہ الرحمۃ بھی تھے جو اپنے زمانے کے مقتدر علماء میں سے تھے اور صاحب تصنیف و تالیف بزرگ تھے جو چالیس سال تک علوم نقلیہ و عقلیہ کی اشاعت فرماتے رہے۔

        حضرت مخدوم خواجہ امکنگی رحمتہ اللہ علیہ تیس برس تک اپنے والد ماجد کے مسند مشیخیت پر جلوہ افروز رہے۔

    آپ خواجہ خواجگان بہاؤالدین نقشبند   رحمتہ  اللہ  علیہ  کے اصل طریقہ نقشبندیہ کی بڑی سختی سے پابندی فرماتے تھے۔ اس طریقہ میں جو نئی باتیں پیدا ہوگئی تھیں، مثلا ذکر بالجہر، اذان و جماعتِ تہجد وغیرہ ان سے پرہیز فرماتے۔

          آپ کی طبیعت مبارکہ میں انتہا درجہ کی انکساری تھی۔ آپ پر دیدۂ قصور کا غلبہ رہتا تھا۔ ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضرت مسجد کا راستہ بلندی پر ہے اور حضرت کو بڑھاپے کے باعث کمزوری لاحق رہتی ہے۔ اگر عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں مسجد میں ادا کرکے ایک ہی بار واپس جایا کریں تو زیادہ بہتر ہو، کیونکہ تین بار آنا جانا ضعیفی میں خاصہ مشکل ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ”جیسی نمازیں ہم پڑھتے ہیں اس میں بس مسجد میں آنا جانا ہی تو کام ہے، باقی ہماری نمازوں میں کیا رکھا ہے۔“ تمام مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کی خاطر تواضع اور شگفتگی آپ کے بوستانِ کردار کا حصہ تھا۔ اگر کوئی مہمان آپ کے گھر آجاتا تو بڑھاپے کے باوجود کہ آپ کے مبارک ہاتھوں میں لرزہ تھا، آپ خود بنفس نفیس اس کی خدمت میں مصروف ہوجاتے، اس کے لئے خود دسترخوان بچھاتے، بسا اوقات مہمان کی سواری اور خادم تک کی خود خبرگیری فرماتے۔

         عبداللہ خان والئ نوران نے خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان خیمہ لگا ہے جس میں حضور سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں۔ ایک بزرگ بارگاہ اقدس کے دروازے پر ہاتھ میں عصاء لئے تشریف فرما ہیں اور لوگوں کی معروضات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کرکے جواب لارہے ہیں۔ چنانچہ حضور اقدس صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس بزرگ کے ہاتھ ایک تلوار مجھے ارسال فرمائی اور انہوں نے آکر میری کمر میں باندھ دی۔ اس کے بعد عبداللہ خاں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بزرگ کے حلیہ مبارک کو ذہن میں محفوظ رکھا اور بزرگ کی تلاش و جستجو میں مصروف رہا۔ حتی الوسع اپنے مقربوں اور درباریوں سے اس بزرگ کا سراپا بیان کرکے ان کے متعلق دریافت کرتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد اس کا ایک مصاحب حضرت خواجہ امکنگی علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے آپ کو بادشاہ کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق پایا۔ وہ فورًا وہاں سے عبداللہ خاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس حلیہ کے بزرگ جن کو آپ نے بیان فرمایا حضرت مولانا خواجگی امکنگی ہیں۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور بڑے شوق سے ہدایا و تحائف لے کر حاضر خدمت ہوا، آپ کو بعینہ وہی پایا جو خواب میں دیکھا تھا۔ بادشاہ نے نہایت تواضع و انکساری کا اظہار فرمایا اور نذرانہ قبول کرنے کیلئے التماس کی، مگر آپ نے قبول نہ فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا فقر کی حلاوت و شیرینی، نامرادی و قناعت میں ہے۔ بادشاہ نے آیہ شریفہ (ترجمہ۔ حکم مانو اللہ اور اس کے رسول کا اور ان کا جو تم میں اختیار والے ہیں) پیش کی، تب آپ نے مجبورًا قبول فرمالیا۔ بادشاہ وقت ہر روز صبح کے وقت نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ آپ کی قدمبوسی کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا۔

           آپ عزیمت کے بڑے پابند تھے اور آپ کی کوئی خانقاہ نہ تھی۔ آپ کو انتہا درجہ کی تمکین حاصل تھی۔ آپ کی مجلس میں رقص و سماع کی گنجائش نہ تھی۔ ایک مرتبہ بعض مخلصین نے درخواست کی کہ کیا حرج ہے اگر آپ کی مبارک مجلس میں مثنوی مولانا روم پڑھی جائے۔ اپ نے ارشاد فرمایا کہ مشکوۃ شریف کی چند حدیثیں پڑھی جایا کریں، بلاشبہ احادیث کا پڑھا جانا زیادہ بہتر ہے۔

         ایک دفعہ تین طالب علم مختلف ارادوں سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک نے نیت کی اگر حضرت فلاں قسم کا کھانا کھلائیں تو بیشک صاحب کرامت ہیں، دوسرے نے دل میں سوچا کہ اگر فلاں قسم کا میوہ عنایت فرمائیں تو ولئ کامل ہیں، تیسرے نے خیال کیا کہ اگر فلاں لڑکے کو مجلس میں حاضر کردیں تو صاحب خوارق ہیں۔ حضرت اقدس نے پہلے دونوں کو تو ان کے خیال کے مطابق عطا فرمادیا، مگر تیسرے کو فرمایا کہ درویشوں نے جو کمالات حاصل کئے ہیں وہ صاحبِ شریعت علیہ السلام کی اتباع سے حاصل کئے ہیں، لہٰذا درویشوں سے کوئی کام خلاف شریعت صادر نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد تینوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ امر مباح کی نیت سے بھی درویشوں کے پاس نہیں آنا چاہیئے کیوکہ بسا اوقات وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور آنے والے بداعتقاد ہوکر ان کی صحبت کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فقراء کے ہاں کرامتوں کا کوئی اعتبار نہیں، ان کے پاس خالصۃ لوجہ اللہ آنا چاہیئے تاکہ فیض باطنی کا کچھ حصہ مل سکے۔

           عبداللہ خاں کی طرف سے ہرات کے حاکم سلطان کے چچا نے جب تراکمہ کے ہاتھوں شہادت پائی تو اس کا بھائی باقی خان اپنے والد اور تمام بھتیجوں کو لے کر ماوراء النہر کی طرف چلا گیا۔ پیر محمد خان نے سمرقند کی حکومت ان لوگوں کے سپرد کردی، لیکن کچھ دن بعد پیر محمد خاں کے دل میں ان لوگوں کی طرف سے بدگمانی اور ایک گونہ خوف پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس نے پچاس ہزار سواروں کے ساتھ سمرقند پر پڑھائی کردی۔ حاکم سمرقند باقی محمد خاں اور اس کے بھتیجوں نے حضرت مولانا امکنگی علیہ الرحمۃ کو بیچ میں ڈال کر رحم کی درخواست کی، اس پر آپ نے پیر محمد خاں کے پاس تشریف لے جاکر اسے نصیحت کی مگر وہ کسی صورت بھی صلح و آشتی پر رضامند نہ ہوا، اس پر آپ خفا ہوکر واپس آگئے اور باقی محمد خاں سے فرمایا کہ تو دل سے تائب ہوجا کہ آئندہ خلقِ خدا پر کوئی ظلم و تشدد نہ کرے گا۔ اس نے آپ سے عہد کیا اور سچی توبہ کی تو آپ نے فرمایا جاؤ جاکر حملہ کرو، ماوراء النہر کی سلطنت تجھے مبارک ہو۔ یہ فرماکر باقی خاں کی پشت پر دست شفقت رکھا اور اپنی تلوار مبارک اس کی کمر پر باندھ کر روانہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے آپ بھی درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کے کنارے ایک پرانی مسجد میں قبلہ رو ہوکر مراقب ہو بیٹھے۔ بار بار سر اقدس اٹھاکر پوچھتے تھے کہ کیا خبر ہے۔ دریں اثنا یہ خبر آئی کہ باقی محمد خاں نے فتح پائی اور پیر محمد خان مارا گیا ہے۔ اس پر آپ مراقبہ سے اٹھ کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔

         ایک رات حضرت مخدومی خواجگی کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے۔ آپ کا ایک ارادتمند ننگے پیر چند خدام کے ہمراہ ساتھ ہی چل رہا تھا کہ اتفاقًا اس کے پاؤں میں کانٹا چبھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا اچھا ہو اگر حضرت کی اس سلسلہ میں مجھ پر کچھ عنایت ہو۔ یہ خیال کیا ہی تھا کہ حضرت مولانا اسی وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے بھائی جب تک پاؤں میں کانٹا نہ چبھے پھول ہاتھ نہیں آتا۔

         آپ کی عمر مبارک نوے سال کو پہنچی تو آپ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد باقی باللہ   رحمتہ  اللہ  علیہ  کو خط لکھا، جس میں آپ نے بعد اظہار و اشتیاق دو شعر لکھے جن کا ترجمہ یہ ہے

       مجھے ہر گھڑی موت یاد آتی ہے نہ جانے کیا پیش آنے والا ہے۔ مجھے ہردم وصل خدا رہے، اس کے بعد جو کچھ پیش آنا ہے پیش آئے۔

        اس خط کے پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی آپ کے وصال کی خبر بھی آگئی۔ آپ کا وصال مبارک ۲۲ شعبان کو ۱۰۰۸ھ بمطابق ۱۶۰۰ع امکنہ میں نوے سال کی عمر مبارکہ میں ہوا۔ وہیں پر آپ کا مزار مبارک مرجع خاص و عام ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی سرزمین آپ کی احسانمند ہے اور تاقیامت آپ کے لئے دعاگو ہے کہ آپ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد باقی باللہ   رحمتہ  اللہ  علیہ  کو یہاں بھیجا تاکہ روحانیت کی پیاسی یہ سرزمین بھی سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض ہو۔